قدرت کی مہربانی کے آسرے میں آسمان پہ ٹِکی آنکھیں

رحمت علی


جنوبی مشرقی سندھ میں واقع تھرپارکر کی آبادی 1.3ملین ہے۔ یہاں ۱۹۶۱ سے اب تک ہونے والی خشک سالی سے ہزاروں جانیں جاچکی ہیں۔ سرکاری عدادوشمار کے مطابق ۲۰۱۳سے۲۰۱۶ تک یہاں ۳۴۳ جانوں کا نقصان ہوا ہے مگر یہ صرف تھر کے ہسپتالوں میں پہنچے ہوئے لوگوں کی شماریاتی تفاصیل ہیں کیوں کہ غیر سرکاری عدادوشمار کے مطابق ہر سال ۸۰۰ سے ۹۰۰ افراد ااپنی جانوں سے جاتے ہیں جو ہسپتال تک پہنچ بھی نہیں پاتے۔

ہم ایک جگہ حکومت کی نااہلی کو روتے ہیں لیکن میں آج عام پاکستانی شہریوں کی بے ہسی پر تبصرہ کروں گاکیونکہ شادی ہال اور ہوٹلز میں ہونے والی کھانے کاضیاں اور اسکی بے ہرمتی قابل ذکر ہے۔ ترقیاتی ملکوں میں campaignsاور organizations اپنے restaurantsاور ہوٹلز کے بچے ہوئے کھانے کو اپنے شہروں کے بے گھر اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو خودسے۰۸۳کلومیٹر کے فاصلے پر۷۴ سال سے بھوکے اور پیاسے لوگوں کی کوئی خاص مدد نہیں کرسکے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاستی قوانین کے مطابق پاکستانیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن تھر میں ہونے والی حکومتی اور عوامی لاپرواہی اور بے توجہی کی ایک اہم وجہ وہاں کی زیادہ تر رہائشی عوام کا غیر مسلم ہونا نظر آتا ہے۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تھر پاکستان کا حصہ نہیں؟ اگر ایسا نہیں تو وہ کیوں بنیادی سہولیات سے مہروم ہیں؟تعلیم،صحت اور روزگار کی سہولیات تو دور کی بات، یہاں کے لوگ پانی کے قطروں کو ترسے ہوئے ہیں۔قدرت کو قصوروارٹھہرانے والوں کی توجہ میں ہمارے پڑوسی ملک کی طرف لانا چاہوں گا۔جغرافیہ لحاظ سے مترادف راجستھان میں زیتون، سبزیاں اور گندم کاشت کی جاتی ہے جس سے وہاں تھر کے نسبتاََ خوشحالی ہے۔

اسلام آبادکے سانحہ کینٹ میں مرنے والے شہید اور تھر میں غزائی قلت کی وجہ سے ہر سال مرنے والوں کا کوئی پرسانے حال نہیں۔شکایت تو میڈیا سے بھی ہے کہ جو توجہ پاناما کیس کو دی گئی، اس سنجیدگی سے عام، غریب عوام کے مسائل کو کیوں نہیں دیکھایا جاتا؟

ہم دنیا بھر میں ہونے والی ریاستی زیادتیوں کو روتے رہتے ہیں، کبھی کشمیر میں ہونے والی بھارت کی زیادتیوں پر تو کبھی اسرائیل کی فلستین پر، لیکن ہمارے اپنے ملک میں ہونے والی ناانصافیوں کا کون سوچ رہا ہے۔

Share in facebook Share in twitter Share via email