پی ٹی وی کے سابقہ پیشہ ور افراد پر مشتمل آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز کے صحیح فیصلوں کی وجہ سے دو سال سے کم عرصے میں پی ٹی وی نے تقریباً 2 ارب کا منافع کما یامگر پھر سے پی ٹی وی کو وزارتِ اطلاعات میں موجود اعلیٰ افسران کے حوالے کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کے نعرے کی سب سے بڑی مخالف اپوزیشن نہیں بلکہ خود حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد سے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) وہ واحد سرکاری ادارہ تھا جو دو سال میں منافع بخش ادارہ بن گیا مگر پوری طرح سے اپنے پیروں پرکھڑاہونے والا ادارہ ایک بار پھربیوروکریسی کے ذریعے سے ملک کے بیشتر پبلک سیکٹرکی طرح معاشی تباہی کی لپیٹ میں آسکتا ہے، موجودہ حکومت کی واحدکامیابی کی کہانی کہ پیچھے وہ سخت فیصلے تھے جن میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تیار کردہ، آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرزاورانتظامیہ میں ان شخصیات کو شامل کرنا تھا جومیڈیا انڈسٹری کہ پیشہ ور افراد تھے مگرپی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز کی یونین کے محاصرے بورڈآف ڈائریکٹرز اور انتظامیہ کے خلاف جھوٹے عدالت کے مقدمات سمیت، دو سال کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز اور انتظامیہ کو بے دخل کرنے میں پی ٹی وی موجود مافیا کامیاب ہوگئی
بیوروکریسی نے پہلے پی ٹی وی کو غلط انداز میں عدالت میں پیش کرکے عدالت کے توسط سے بورڈ آف ڈائریکٹرزکی نااہلی کا کیس جیتا نہ جاسکا جبکہ بیوروکریسی ایک نئے ثروت مند لوگوں پر مشتمل بورڈ آف ڈائریکٹرز لانے میں کامیاب رہی۔
نعیم بخاری کی بطور چیئرمین پی ٹی وی منتخب ہونے کے بعد پی ٹی وی کو منافع بخش بنانے کے لیے گزشتہ دو سال کے دوران کیے گئے فیصلوں کی لاگت میں کمی کے نام پر ان تمام افراد کو جنھوں نے ادارے کو منافع بخش ادارے میں تبدیل کیاتھا عہدے سے ہٹادیاگیا،دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ انتظامیہ کو گزشتہ دو سال کی کارکردگی پیش کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔
نئے چیئرمین صاحب ایک جانب یہ کوشش کررہے ہیں کہ وہ کچھ مقبول فیصلے کرکے وزارتِ اطلاعات اور پی ٹی وی میں موجود بیورو کریسی کو خوش کریں اور دوسری طرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پچھلے دو سالوں کے دوران سابقہ آزاد بورڈ کے ذریعے کیا جانے والا ہر فیصلہ غلط تھا،واضح رہے کہ سابقہ بورڈ خود ہی وزیر اعظم نے تیار کیا تھا۔
دو سال پہلے نئی تشکیل کردہ ٹیم میں شامل میڈیا انڈسٹری کا تجربہ رکھنے والے وہ افراد شامل تھے جنھوں نے سرکاری چینل کے مواد اور نقطہ نظر کو بدلنے میں مدد کی اورآزادانہ فیصلوں کی وجہ سے ستمبر 2018 سے نومبر 2020 تک کامیابیاں سمیٹیں۔
پی ٹی وی کا 2018 تا 2019 کے آڈٹ شدہ آپریشن منافع 853 ملین کا رہا جبکہ 2019 تا 2020 کا آپریشن پرویشنل (صوبائی) منافع 1.1 ملین کا ہوا، اکتوبر 2018 سے ستمبر 2020 تک آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز اور نجی شعبے کے پیشہ ور افراد کی بنیادی ٹیم کی بہتر مالی انتظام، رساؤ کی روک تھام، لاگت میں کٹوتی اور محصول میں اضافے کی وجہ سے منافع حاصل کیاگیا اور دو سالوں میں ادارے نے 2.8 بلین کے آپریشنل واجبات ادا کیے جبکہ 1.5 بلین کی پنشن اورکمیونٹیشن بھی ادا کیے گئے، اس کے ساتھ، پی ٹی وی نیوز میں پندرہ نئے پروگراموں کا اضافہ کیا گیا جن میں سینئر اینکرز اور سینئر صحافی (امتیاز گل، اویس توحید، نادیہ مرزا، منیبہ مزاری) کے پروگرامز بھی شامل ہیں، بہتر مواد، جارحانہ مارکیٹنگ اور قدرِ بہتر فیصلوں کے باعث پی ٹی وی ہوم کی درجہ بندی دگنی ہوگئی، نیوز کاسٹرز، چینل کے گرافکس اور سیٹ نے پی ٹی وی کو نئی شکل دی اس کے علاوہ پی ٹی وی نے پی سی بی سے 2022 تک اسپورٹس کے حقوق حاصل کیے اور 2023 تک آئی سی سی کے حقوق بھی خرید کر پنجے گاڑ لیئے۔
مگر ان تمام کامیابیوں کے باوجود ایک بار پھر سے پی ٹی وی کو بیوروکریسی کے حوالے کیا جارہا ہے، اس طرح پی ٹی وی کو آزاد بورڈ کے حوالے کرنے کے بجائے وزارتِ اطلاعات کے ماتحت کرنا پچھلے ادوار کے غلط فیصلوں کاتسلسل ہے۔
نئے چیئرمین پی ٹی وی نعیم بخاری نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک متنازع بیان دیاہے جس میں انھوں نے کہاکہ " اپوزیشن کو برابری کا بلکل ٹائم نہیں ملے گا، پی ٹی وی ایک ریاستی ادارہ ہے اور وہ صرف حکومت کے بیانیے کو پیش کرے گا"۔ یہ بات نئی نہیں مگر پی ٹی آئی کے منشور کے خلاف ہے، حکومت میں آنے سے قبل پی ٹی آئی اس بات پر زور دیتی تھی کہ ریاستی چینل کو ایک حکومتی چینل بنانے کے بجائے، ایک آزاد ادارہ بنایا جائے گا مگر نعیم بخاری کو بطور پی ٹی وی چیئرمین منتخب کرنا اس بات کا غماز ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک منافع بخش ادارہ بنانے کے بجائے حکومتی بیانیے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔