ملیر کی ایک اور شکل

اکبر علی


ملیرعام طو ر پر پارٹی اور گینگ بازی کیلئے جانا جاتا ہے۔ہر چیز کی طرح اس کا صرف یہی پہلو نہیں۔ بلکہ ملیر میں ہونے والے کھیل،رقص اور موسیقی سمیت دوسرے فنون میں بھی یہاں کے لوگوں میں سب کی طرح اپنے آپ کو منوانے کا جزبہ واضح نظر آتا ہے۔آیئے میں آپکا تعارف کرواتا ہوں خود سے۔ میں ہوں اکبر۔ کارنامہ میرا میاں داد جتنا خاص تو نہیں لیکن میں ایک survivor ہوں اور یاروں کا یار۔

میرے حالات مجھے 1999میں بدین سے کراچی لے آئے اور جس عمر میں بچے اچھلتے کودتے بے فکرمستی موج کرتے ہیں میں اس عمر میں زری کے کام میں لگوادیا گیا۔ حالات کچھ سنبھلے تو میں نے سندھی اسکول میں داخلا لیا اور کام کہ ساتھ پڑھنے بھی لگا۔ آدھادن کام اورآدھادن پڑھائی پھر بھی میں ہر بار پہلی پوزیشن لیتا۔پڑھنے کا شوق ہی کچھ ایسا تھا۔جب میں آٹھویں کلاس میں تھا توگھرکے مالی حالات نے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ بس پھر میں سب چھوڑ چھاڑ کر پورا دن کام ہی کرتاتھا۔ لیکن پڑھنے کی چاہت نہ جھٹک سکا اور اسے ساتھ لئے آگے بڑھتا رہا۔

اسکول میں کینٹین کو سنبھالنے سے لے کر کلینک میں کمپاؤنڈرکے کاموں میں مصروفیات چلتی رہی کہ ایک دن میرے چچا قادر نے مجھے بلایا۔ انہوں نے اپنے علاقے میں غریب بچوں کہ لئے ایک سینٹر کھولا جہاں فیس صرف 30 روپے تھی۔ میری اسکول میں کار گردگی اور پڑھنے کے شوق کو سمجھتے ہوئے انہوں نے مجھے وہاں بچوں کو پڑھانے کو کہا اور اپنی چھوڑی ہوئی پڑھائی کو آگے بڑھانے کا موقع دیا۔شام میں ویسے ہی فراغت تھی۔ میں نے ہاں کردی۔بس پھرمیں نے اپنے میٹرک کے امتحان دیئے اور قادربھائی کے ساتھ سوشل کاموں میں انکا ہاتھ بٹاتا رہا۔

وقت کی ضرورت کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے مجھ کو کمپیوٹر کورس کرنے کا شوق ہوا لیکن وہی پرانے فیس کے مسائل۔ لیکن سوشل کاموں کے کئی فائدوں میں اضافہ ہوا اور ایک NGOنے، جسکے ساتھ میں پہلے کام کرچکا تھامیری فیس اداکی اور ملیر کہ سب سے اچھے سینٹرiACTمیں داخلا کروا دیا۔

پیر زمین پہ جمے اور مایوسی کم ہوئی تو اپنے گرد دوستوں کی بھی میں نے مدد کرنے کی کوشش کی۔ میرے دوست پڑھے لکھے اور خوشبوؤں میں نہائے بہت صاف ستھرے تونہیں لیکن مجھے بہت عزیز ہیں۔ میری طرح ان سب کی مجبوریوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس کی وجہ سے کبھی انہوں نے اپنے پیاروں کو سنبھالنے کیلئے صحیح فیصلے لیئے اور کبھی غلط۔ لیکن میں اس بات سے آشنا ء ہوں کہ ہمارے ساتھ نے ہمارے لئے زندگی کی مشکلات جھیلناکتنا آسان کیا۔ہماری شرارتیں اور نوٹنکیاں ہمیں ساتھ اور خوش رکھنے کے لئے کافی تھیں۔

جاوید ایک دن بہت مایوس میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اپنی دکھ بھری کہانی کا نشرمقرر سنانے کے بعد جب وہ دوستوں کے دکھڑے پر آیا تو اسکے منہ سے بے ساختہ پھیکی سی ہنسی نکلی اور کہنے لگا کیا ڈرامہ ہے ہماری زندگی یار! بس جاوید کی طرح میری سوئی بھی اس جملے پر اٹک گئی۔ ہماری زندگیاں واقعی ایک ڈرامہ تھیں اور ہم سے بڑے ڈرامے باز ہماری نظر میں کوئی اور نہ تھا۔اس شوق کی ابتدا میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملیر تھیٹر گروپ بنا کر کیا اور یہ سوچ لیا کہ اس میں ہم ایسے لوگوں کو لینگے جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر بڑھ نہیں پا رہے ہو ں اور آدھا دن کام کرتے ہو ں۔میں نے سب سے پہلے اپنا ارادہ جاویدسے shareکیا اور ہم اپنے گروپ کے لئے لوگ تلاش کرنے لگے۔ اس طرح ملیر اسٹارزوجود میں آئے۔ کئی جگہوں پر perform کیااور انعامات جیت کر ہم نے اپنے علاقے اور جاننے والوں میں ایک نام کما لیاتھا کہ پھر ایک دن میری ملاقات عمران شروانی سے ہوئی۔ان سے مل کر اور جان کر اندازہ ہوا انکا میڈیا میں میری عمر سے دگنا تجربہ اور بہت نام ہے۔میں انکے پیچھے پڑ گیا کہ سر مجھے اداکار بننا ہے مجھے آپکا نمبر چاہیئے۔ وہ مجھے ٹالتے رہے پر میں بھی کہاں پیچھا چھوڑتا ہوں۔سر عمران وہاں کسی اور کو اپنا نمبر دے رہے تھے میں نے بھی لکھ لیا کیونکہ مجھے ان سے مل کر سمجھ آگیا تھا کہ انکے ساتھ میں کتنا اور آگے بڑھ سکتا ہوں۔

میں نے سر کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ہر دو دن بعد کال کرتا یہاں تک کہ میں کسی بھی نمبر سے سر کو کال کرتا، hello بولتے ہی سر پہچان جاتے۔آخر کارایک دن ایک سوشل پروگرام میں ان سے پھر ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اپنی ٹیم لیکر میٹنگ کیلئے آؤ۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ میری زندگی ایک بہت زبردست U-turnلینے والی ہے۔

میں قادر بھائی کہ ساتھ عمران صاحب کے آفس مٹینگ میں گیاکو توانہوں نے اپنے ویب چینل کا بتایا۔ کہنے لگے تم اپنی ٹیم کہ ساتھ آؤ، ہم سے ٹریننگ لو اور اس پر کام کرو۔ میں نے سوچا مجھے تو اداکار بننا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ لیکن میں اب عمران صاحب کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔اب ہمارا ٹولا ہر اتوار کو ٹریننگ لینے جاتا۔ہم سوچتے یار!اتوار کو تو ہم کرکٹ کھیلتے ہیں۔ خیر!

پہلی کلاس میں 24لوگ تھے دوسری میں 12اور تیسری میں صرف میرا گروپ آرہا تھا۔ ایسے5ماہ تک کلاس لینے آتے رہے۔ لوگوں کی تعداد کم زیادہ ہوئی لیکن ہم ٹِکے رہے کیوں کہ واقعی بہت سی چیزیں سیکھنے کو ملی۔ اس ور ک شاپ نے ہمیں اتنا آگاہ کردیا تھا کہ اپنے ارد گرد مسائل جنہیں ہم بخوبی جانتے اور سمجھتے تھے ان سے بھاگنے کے بجائے انکو سلجھانے کے بارے میں سوچنے لگے۔اب میرا زری کہ کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔میں نے عمران صاحب سے نوکری کا کہا تو انہوں نے دوسرے مہینے سے بلالیا۔ جو پیسے کہے تھے سر نے اس سے زیادہ دیئے۔ مگر یہ بھی ایک شروعات تھی۔

جو کام مجھے دیا گیا وہ بہت مشکل تھا۔ڈرامے اور اسکرپٹ میرے لیئے مشکل کبھی نا تھے لیکن اس طرح میں نے امتحان میں بھی کم ہی لکھا تھا۔کیوں کہ سر نے بہت اعتماد سے دیا تھا تو مجھے حوصلہ ملا۔ میری مشکل کچھ اور آسان میری ایڈیٹر میڈم خزیمہ نے کی جنہوں نے میری کہانیاں سن کر میری حوصلہ افزائی کی۔میں روز کچھ نیا سیکھ رہا تھا۔ میرے ٹاسک بلکل نئے ہوتے تھے پرمیرے گرد سب نے مجھے آگے بڑھ کر مدد دی۔

میں نے DSLRکبھی استعمال نہیں کیا تھا۔سر نے آرٹس کونسل کے یوتھ فیسٹیول میں میرے ہاتھ میں DSLR دے دیا اور ایسے سکھایاکہ میں صرف ۵دن میں سیکھ گیا۔ یہاں ہونے والی ٹریننگ میں ویڈیو ایڈیٹنگ اور اسکرپٹ لکھنا ہمیں ماہرین نے سکھایا اور مجھے میرے فن میں خود مختار ہونے کا موقع دیا۔ اسسٹنٹ ایڈیٹر سے لے کر پروڈکشن، زمہ داریاں اور عہدے بڑھتے جارہے ہیں اور میرے دوستوں کی فہرست بھی لمبی ہورہی ہے۔ ماز او ر سمیرا نے کام کو موج بنا دیا۔ مشکلیں بھی آتی رہتی ہیں جیسے وہ کبھی کبھی کی لمبی راتیں جب آفس میں رکنا پڑھ جاتا ہے لیکن اچھے دن زیادہ آتے ہیں جیسے میرے colleagues کی سالگرہیں۔ایک دن سر نے مجھ سے کہا کہ نئے studentsکی کلاس لینی ہے۔ پہلے میں بہت پریشان ہوا۔ کیسے لوں گاپر پہلی میڈیا کی کلاس میں نے لی۔سر عمران نے ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح ڈانٹا اور پیار کیا اور مجھے کوئی بھی پریشانی ہو تومیں میڈم خزیمہ کے پاس جاتا اور وہ فوراً حل بتا دیتیں۔ اس سب میں سب سے زیادہ فائدہ میرے تھیٹر گروپ کو ہوا۔ اس کیلئے ٹائم نکالنا میں نے نہیں چھوڑاکیونکہ اس تھیٹر کی وجہ سے ہی میں اس مقام تک پہنچا ہوں۔

Share in facebook Share in twitter Share via email