یومِ آزادی مناتے وقت یہ سوال ہمیشہ ذہنوں میں گونجتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں۔ اس لئے کہ جا بجا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کئی قسم کی پابندیاں ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مہذب معاشروں میں مادر پدر آزادی نہیں ہوتی۔ کچھ تو قدغنیں لگانی ہی پڑتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو پھر تہذیب نہ رہے گی اور انسان پھر سے جنگل کی مخلوق ہوجائے گا۔
میں بھی مانتا ہوں کہ حد سے گزرجانا کسی طور انسانیت نہیں۔ ہماری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں ہم کسی دوسرے کی آزادی سلب کرنے لگیں۔مگر اس حد تک پہنچنے سے پہلے ہمیں آزادی ملنی چاہیے۔ تو کیا ہم آزاد ہیں یا آزادی کا دن منانے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم واقعی آزاد ہیں۔
سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ہم غلام ہیں یا آزاد؟ مجھے کونسی آزادی چاہیے جو نہیں مل رہی۔ آخر آزادی ہوتی کیا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
اس بات کو سمجھنے کیلئے میں نے بھی وہی کیا جو ہرصحافی ایسے موقع پر کرتا ہے یعنی میں نے مختلف شعبہ ہائےزندگی سے تعلق رکھنے والے کچھ اہم لوگوں سے یہی سوال پوچھا۔ ان میں پروفیسر ہارون رشید اور ڈاکٹر توصیف احمد خان جیسے اساتذہ بھی شامل تھے۔اِس کے علاوہ دیگرمعززین میں قیصر بنگالی، اکبر زیدی، اسد سعید اورماہرینِ اقتصادیات ۔سینیٹر حاصل بزنجو، کرامت علی، غلام فاطمہ،سعید بلوچ،بشریٰ آرائیں، حبیب جنیدی،شاہینہ رمضان، فرحت پروین، قمر الحسن، اورغلام محبوب جیسے سیاسی، سماجی اور مزدور رہنما بھی شامل تھےاوراظہرعباس اور فیکا جیسی میڈیا شخصیات سے بھی میرا یہی سوال تھاکہ آزادی کا مطلب کیا؟
ان کے جوابات میرے سوال کا اچھاخاصہ جواب دے دیتے ہیں۔
اکبر زیدی: بنیادی طور پرآزادی ہرطرح کے جبر اور خوف سے ہر طرح کی مصیبت سے دوری کا نام ہے۔ ایک فرد آزاد اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنی رائے کا اظہار کرے بلا خوف ۔خوف اگر ہو تو آزادی نہیں ہوسکتی جبر اگر ہو آزادی نہیں ہوسکتی اگرکوئی مصلت ہوجائے کسی پر تو آزادی نہیں ہو سکتی۔ اسکی نفی کی جائے تو وہ آزادی نہیں ہوتی ہے غلامی ہوتی ہے۔ غلامی آواز کی ہوتی،غلامی سوچ کی ہوتی ہے، غلامی ملکوں کی ہوتی ہے۔ ان چیزوں سے بالکل انحراف کرنا ان چیزوں سے لڑنا ان چیزوں کو رد کرنا یہ آزادی ہوتی ہے۔ آزادی ِسوچ بنیادی طور پرہوتی ہے کہ میرے دماغ میں جو خیال آتا ہے اس کا میں اظہار کر سکوں اور میں اسے سوچ سکوں ۔ ایک غریب سے غریب اور ان پڑھ شخص بھی آزادی کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک امیر ترین شخص بھی آزادی کہ بارے میں سوچتا ہے لیکن یہ سوچیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں ۔جوامیرشخص ہے وہ سوچتا ہے اتنی آزادی ہونی چاہیے کہ میں جو چاہے کر سکوں اوعیاشی بھی کر سکوں یہ کھا سکوں وہ پی سکوں اور اِدھر ادھرجا سکوں ۔مجھ پر پا بندی نہیں ہونی چاہیے ۔غریب آدمی بھی یہی سوچتا ہے پر اس کیلئے وہ اس طرح سے محل کے خواب نہیں دیکھے گا ۔وہ کہے گا میں اس بات سے آزاد ہونا چاہتا ہوں کہ میرے بچے پڑھ سکیں مجھ پر کوئی بوجھ نہ ہو۔مجھ پر کوئی قرضے نہ ہو۔ مجھے زندگی اتنی مہلت دے کہ میں سکون اورعزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکوں اور میرے بچے مجھ سے بہتر ندگی گزار سکیں ۔ یہ بھی آزادی کا ایک اظہار ہوتا ہے۔
ممالک کی آزادی آسان ہے شاید کہنا اسکا اظہار کرنا کہ وہ ملک آزادی چاہتے ہیں جبر سے ،غلامی سے۔ وہ اس طرح کی قوت چاہتے ہیں ایک طرح کا سیاسی اظہار چاہتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود لے سکےں۔ وہ کسی اورملک کہ محتاج نہ ہوں قرضے میں نہ ہو ں۔ وہ آزادی اس طرح مناسکیں کہ ہم غریب سہی پر ہم خود فیصلے لے سکیں ایسے کچھ ممالک ہیں جوخاصےغریب ہیں جو وبا کی مثال ہیں پرآزادی سے فیصلے لے سکتے ہیں ۔کچھ ملک ہیں جو امیر ہیں سعودی عرب کی مثال ہے وہاں لوگ آزاد نہیں ہیں۔عورتیں آزاد نہیں جو گاڑی چلا سکیں امیر ترین ملک ہے پر آزاد نہیں ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کر سکے۔
حاصل بزنجو: جب تک آپکا معاشرہ ان قدغنوں سے ان مصیبتوں سے آزاد نہیں ہوتا تو انسان آزاد نہیں ہوتا۔ جب آپ غربت سے آزاد نہیں جب آپ جہالت سے آزاد نہیں ہوتے جب آپ بیماری سے آزاد نہیں ہوتے تو آزادی کا لفظ بے معنی ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آزادی کا معنی ایک صحت مند معاشرہ ایک انصاف میں مبنی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر کسی کو اپنے خیالات اپنی باتیں کرنے کی اجازت ہو اور وہ ان تمام چیزوں میں آزاد ہو اوروہ اپنے علاج میں آزاد ہو وہ اپنی زندگی میں آزاد ہو۔ میں سمجھتا ہوں جس ملک میں اور جس خطے میں جسے ہم سا?تھ ایشیا بولتے ہیں جہاں ۸، ۹ کروڑ لوگ بھوک بیماری افلاس میں ہوں وہاں آزادی کا لفظ بے معنی ہوتا ہے۔
پروفیسر ہارون رشید: یہ ملک ایک ایسی علمی جدوجہدسے حاصل کیا گیا جس کا سہرا یقیناََہم کوسر سید احمد خان کو دیتے ہیں۔ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ کس طرح سے لوگوں نے مسلمانوں کی ترقی نہ ہونے کی وجہ تلاش کرلی تھی اور وہ سبب یہ تھا کہ مسلمان ایک دقیانوسی علمی ماحول میں تھے جو نہ ہونے کہ برابر تھا۔لوگوں کہ پاس مذہب کی رواداری تو بہت زیادہ تھی مگرروشن خیالی مخصوص تھی۔ سر سید اور ان کے ساتھیوں نے آزادی کی جدوجہد کیلئے علم کا راستہ اختیار کیا کیونکہ علم انسان کو مزید روشن خیالی کا سبب دیتا ہے اور منسف مجاز بھی بننے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔
آزادی صرف یہ نہیں کہ آپ اچھے اور محفوظ ماحول میں رہیں جہاں آپ اچھے کپڑے پہنیں اور بچوں کو آزاد ماحول دیں کیونکہ انسان دنیا میں آزادہی پیدا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی آزادی کے بعد جس طرح مقروض زندگی گزاری ہے پاکستانیوں نے وہ ہمارے لیئے ایک اہم سوالیہ نشان ہے جس سے ہم نے آزادی کے وہ معنی کھو دیئے ہیں جو زندگی میں ترقی کے راستے کھولتے ہیں۔ آپ دیکھیں اقوام عالم میں ہم مہض جہالت کی بنیاد پر حقوق کی نفی کر رہے ہیں۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ اقوام متحدہ میں یا دنیا کے تمام بڑے ممالک میں پاکستان کی حیثیت کو تعین کیا جاتا ہے تو اسے ایک نظر انداز کرنے والی قوم کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ قوم اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتی، خود نہیں کر پاتی۔ اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اسکا نصاب کیا ہونا چاہیئے، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسکی زندگی کا رہن سہن کیا ہونا چاہیئے، اسے یہ نہیں معلوم کی اسکی جغرافیہ حدود کا تعین کیسے ہونا چاہیئے، اس کو یہ نہیں معلوم کہ اسکے تاریخ اور ماضی کا حال کیا ہونا چاہیئے۔ اسکو یہ نہیں معلوم کے اسکی آنے والی قوموں کے معمران کس نحج پر ہیں اور آنے والے وقت میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہیئے۔ایسی قوم جو اپنے مستقبل سے بے فکر ہواور ماضی کے اندر کھوئی ہوئی ہو اور اپنے حال سے بلکل غافل ہو وہ قوم آزاد قوم نہیں کہلاسکتی۔
آزادی کی بہت سے معنی ہیں۔اقبال کا آزادی کا خیال اس محدود دنیا سے آگے کا تھا جبکہ ہم نے اپنے اطراف سے اپنی زات سے سوچنا شروع کیا، اپنے لوگوں میں اپنے آپ کو مقیعد کر لیا ہے۔جب ایسا ہوتا ہے تو آپ معاشرے میں ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں تھامتے اور آگے نہیں بڑھتے اور ایسا معاشرہ مجبور ہوتا ہے اور آزادی کی نعمت سے ساری زندگی محروم رہتا ہے۔
قیصر بنگالی: اگر کسی کو یہ پریشانی ہے کہ گھر جائیں گے پیسے ہیں نہیں بیوی بچے انتظار میں ہے کہ پیسے آئینگے تو کھانا آئیگا ۔ یا آج اگر کھانا ہے تو یہ نہیں پتہ کہ کل ہوگا دسترخوان پر کھانا توپھرہم معاشی طور پر آزاد نہیں ہیں۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے آزادی کا۔ قوموں کےحوالے سے آزادی یہ ہے کہ ہم آگے کام چلانے کہ لئے اگلا قرضہ کونسا لینگےتوپھرہم معاشی طور پر آزاد نہیں ہیں ۔
توصیف احمد خان:بحیثیت ایک استاد کے میں سمجھتاہوں کہ تعلیم کےشعبے میں آزادی کا مطلب ہے کہ طالب علم کواوراساتذہ کو اپنے خیالات کو پیش کرنے کی آزادی۔ انہیں تحقیق کی آزادی انہیں تنقید کی آزادی انہیں تحریر کی آزادی انہیں اکیڈمک فریڈم کو استعمال کرنے کی آزادی ۔ اگر اساتذہ اور طالب علموں کو تحقیق کی آزادی ہو اپنے خیالات کو پیش کرنے کی آزادی ہواوراس کہ لئے ریاست یقین دہانی کرائے تو پھر اسااتذہ اور طالب علم معاشرے کہ دوسرے اداروں کو رہنمائی کر تے ہیں۔ یونیورسٹیز کی جو دنیا میں اہمیت ہے وہ علمی آزادی کی وجہ سے ہے ۔ یہ آزادی ہمارے یہاں میسر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری یونیورسٹیز میں وہ تحقیق کا معیار نہیں ہے اساتذہ اس طرح تحقیق نہیں کرتے طا لب علموں کی ریسرچ کا معیار نہیں ہے اور نا نئے خیالات ہماری یونیورسٹیز میں ڈیویلپ ہوتے ہیں ۔نئے خیالات ڈیویلپ نہ ہونے کی ایک اہم وجہ ہمارے اداروں میں آزادی کا نہ ہونا ہے۔
اظہر عباس: ایک صحافی کی حیثیت سے آزادی کا مطلب یہی ہے جو آپ ٹھیک سمجھتے ہیں جس چیز کو آپ سمجھتے ہیں کہ ضروری ہے اور سب سے بڑی بات ہے جو عوام کے انٹرسٹ میں ہے وہ آ پ کسی بھی طرح سے سامنے لا سکیں۔ یہ ہے آزادی اور اگر آپ اس چیز کو سامنے نہ لا سکیں تو اسکا مطلب ہے آپ ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ چاہے اس سے کتنے ہی لوگ ناراض ہو جائیں اور چاہے اس سے کتنے ہی انٹرسٹ متاثر ہو رہے ہوں لیکن اگر وہ عوام کے مفاد میں ہو تو آپ اسے سامنے لاسکیں۔یہ ہے اصل میں آزادی۔
فیکا: آزادی استعمال کرنے کی چیز ہے۔ کچھ لوگوں کو ظرف ہوتا ہے اسے استعمال کرنے کا ۔وہ اس کو استعمال کرتے ہیں۔ میری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں آپ کی ناک شروع ہوتی ہے۔ آزادی مادر پدر آزادی نہیں بہت ہی آرٹسٹک اور شاندار ایک طریقہ ہے جو آپ استعمال کرنا چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
بقیہ آئندہ ۔۔۔