وطن عزیز کا دفاع کیسے کیا جائے

عمران شروانی


وطن عزیز شاید ان ممالک میں آتا ہے جہاں ہم کسی جنگ کی فتح کو نہیں بلکہ اس خیال کو یاد کرتے ہیں کہ ہم پر کسی نے حملہ کر دیا تھا۔ چھ ستمبر 1965 کو بھارت نے پاکستان پر لاہور کی سرحد پار کر کے حملہ کردیا تھا۔اس سے پہلے ہم نے کشمیر پر چڑھائی کی ہوئی تھی جس کے بارے میں ہمارا سرکاری مورخ چپ ہے۔ ایک چپ سو بلا ٹالتی ہے۔ مگر کیا کہیے اخبارات کو کہ چپ نہیں رہ سکتے۔ 65میں جہاں ڈان اخبار نے اس لڑائی کی ساری خبریں ستمبر سے پہلے بھی چھاپی تھیں کہ سرکار کو اندازہ نہیں تھا کہ بھارت کیا کرے گا اور ہماری فوجی حکومت بڑ ھ بڑھ کر بڑکیں مار رہی تھی۔ یوں اس جنگ کا 6ستمبر سے پہلے کا حساب سارا موجود ہوگیا۔

اور پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اگر آج کی نسلوں کو اس جنگ کی اصلیت کا علم نہیں تھا تو ڈان نے 50سال پرانی خبریں چھاپنے کے سلسلے میں سب کو بتا دیا کہ اس وقت 6ستمبر کو بھارت نے بغیر بتائے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ بات تو خاصے دنوں سے چل رہی تھی کہ اگر پاکستان نے کشمیر سے فوجیں واپس نہیں بلائیں تو بھارت دوسرے محاذ کھول دے گا۔ وہ دھمکی دیتے اور ہم انہیں تنبیہ کرتے کہ ایسا کرنے کا سوچنا بھی نہیں۔ مگر بھارت نے یہ سوچ ہی لیا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں نہ ملے معاہدہ تاشقند میں ضرور ملتا ہے کہ ہم نے دشمن کی اتنی زمین اور اتنے سپاہی نہیں قبضے کیے جتنے دشمن نے ہمارے۔

اسی لئے ہم اپنی "فتح" نہیں مناتے ہر چند کہ ہمارا دعوہ یہی ہے کہ 23ستمبر کو بھارت کو حزیمت اٹھانی پڑی تھی۔

مگر کیا وطن عزیز کا دفاع یوں کیا جاتا ہے؟

پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ہے کیا جس کی حفاظت اشد ضروری ہے۔ بہت سے اصحاب قنوط کہیں گے کہ اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے جس کی حفاظت کی جائے۔ بیماریاں ہیں تو پھیلے ہی چلی جارہی ہیں، تعلیم نام کو نہیں، بے روزگاری اور جرائم کی آماجگاہ ہے اور پھر سڑکوں اور شہروں کے حالات تو آپ سے کوئی چھپے ہوئے نہیں۔زرا سی بارش ہوجائے تو اب تو پورا ملک ہی سیلاب کی صورت بہنے لگتا ہے۔

ظاہر ہے اسی لیے یہ اصحاب قنوط اور ان کے بچے بھاگ بھاگ کر امریکہ آسٹریلیا اور خاص کر کینیڈا کا رخ کر رہے ہیں۔

مگر میں آپ تو یہیں رہیں گے نا۔ لہٰذہ آئیے دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک اور اپنی زندگیوں کو بچانا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔

زندہ رہنے کیلئے سب سے پہلے ضرورت ہے صحت کی۔ جان ہے تو جہاں ہے۔ اگر وہ ہی نہ ہو تو کیسے بھلا کچھ اور سوچیے۔ ہماری صحت کے مسائل حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اسپتال کلینک اور ان میں اسٹاف ہو۔ ا ب تو سرکار نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے کہ علاج معالجے کی سہولیات گھر گھر خود پہنچ جاتی ہیں۔ مثلاََ لیڈی ہیلتھ ورکرز جو صحت کی بنیادی سہولیات لے کر گلی محلّوں میں پائی جاتی ہیں۔

مگر یہ سہولت تو خود اپنے آپ کو بچانہیں پاتی۔ مسلسل ہم دیکھتے ہیں کہ ان خواتین پر حملے ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی شہید بھی ہو چکی ہیں۔ تو وہ لوگ جو ہماری زندگیوں کی حفاظت پر معمور ہیں اور جو اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتے ان کی اپنی زندگیاں کتنی آرام سے ان سے چھین لی جاتی ہیں صرف اس لئے کہ وہ ہماری یہ اہم ترین خدمت کر رہی ہوتی ہیں۔ وطن عزیز کے دفاع میں اگر کوئی شہید ہے تو یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں۔

اپنی زندگیاں کتنی آرام سے ان سے چھین لی جاتی ہیں صرف اس لئے کہ وہ ہماری یہ اہم ترین خدمت کر رہی ہوتی ہیں۔ وطن عزیز کے دفاع میں اگر کوئی شہید ہے تو یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں۔

اب آپ یہ پوچھیں گے کہ شہادت میں کسے کہتا ہوں۔ تو اس کا جواب بہت سیدھا اور آسان ہے۔ میرے لئے شہادت کا تصوّر آپ کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ شہادت کے معنی ہیں گواہی دینا۔ اگر ہم کسی چیز پر کاربند ہو ں اور اتنے تیقن کے ساتھ کے اس بات کی گواہی اپنی زندگی دے کر بھی کریں تو گواہ ہونے کا اس سے بڑا رتبہ کوئی اور نہیں۔ تنخواہ اور دیگر مراعات کا اس تصور میں کوئی ذکر نہیں۔شہید گویا وہ ہیں جو بغیر کسی دنیاوی منفعت کے کسی ایسی بات کو عمل میں لائیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی تک کو خطرہ ہو۔ اس سے بڑھ کر شائد کچھ نہیں۔ یا شائد عزت کو خطرے میں ڈالنا زیادہ بڑی بات ہوتی ہوگی۔ بہر حال اس پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن شہادت دینے کیلئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانا اور اس کے بدلے میں کچھ نہ مانگنا ہی سب سے افضل درجہ ہے۔

تو آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے کچھ نہیں مانگا اور اپنی زندگیاں دے کر بھی وطن عزیز کی خدمت کو اہم سمجھا۔ایک ممتاز نام اس سلسلے میں جو یادداشت میں رہے گا وہ ہے پروین رحمٰن کا۔ پروین کراچی کی زمین کا وہ ریکارڈ جمع کر رہی تھیں جس کے ذریعے یہ معلوم ہو سکے کہ ہمارے وطن عزیز کی زمین پر کس کس کا قبضہ ہے اور جائز حق کس کا۔ ظاہر ہے جو قبضہ مافیا ہے اس کو یہ کیوں برداشت ہوتا۔

13 مارچ 2013 کودفتر سے گھر واپس آتے ہوئے پروین کوگولی مار دی گئی۔

پروین رحمٰن یقینا شہید ہے۔ وہ شہید جس نے ہر قسم کے خطرے کی پرواہ کیے بغیر اپنا وہ کام جاری رکھا جس سے اس ملک کے لوگوں کا مفاد وابستہ تھا۔ ایسے شہید کو کوئی ایوارڈ کوئی میڈل کوئی ایسا تمغہ ملنا چاہیے جو تمام تمغوں سے برتر ہو۔ جس کے بعد تمام پاکستانی بشمول صدرِ پاکستان اسے سلامی پیش کریں۔ اسے نشانِ حیدر ملنا چاہیے کہ شہیدوں کو ہم یہی پیش کرتے ہیں۔

مگر آپ کہیں گے کہ وہ تو صرف فوجیوں کو ملتا ہے۔

تو میں کہوں گا کہ جس نے اپنی جان کا نذرانہ ایسے دیا کہ اسے کبھی کوئی مالی فائدہ نہیں ہوسکتا تھا وہ ان سے بھی بڑھ کر ہے جن کی زندگیوں کی قربانی پر کوئی اور DHAمیں زمین حاصل کرنے کا کیریئر بنالیتا ہے۔ میں سپاہیوں کی جانی قربانیوں کو بہت اہمیت دیتا ہوں۔ وہ یہ جانتے ہوئے کہ وہ جنگوں کا ایندھن بنادیے جائینگے فوجوں میں شامل ہوتے ہیں۔ مگر پھر وہ اس خطرے کو مول لینے کی تنخواہ بھی لیتے ہیں۔

پروین نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ نہ خطروں میں پڑنے کی کوئی تنخواہ لی اس لئے کہ جو تنخواہ انہیں مل رہی تھی وہ صرف تحقیق کرنے کی تھی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھومنے کی نہیں۔ اور نہ ہی ریٹائرمنٹ پر (اگر وہ اس عمر تک پہنچ پاتیں تو) انہیں کسی DHA میں کوئی زمین کا پلاٹ مل جاتا۔ یہ مراعات تو صرف مراعات یافتہ طبقہ ہی حاصل کر پاتا ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کو بھی ایسا کچھ نہیں ملتا۔ انہیں تو عموماََ تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتیں۔

اور اعتزاز حسن کے بارے میں کیا کہیے گا۔ اس نوجوان نے ایک دہشتگرد کو اپنے اسکول پر حملہ کرنے سے روکنے کیلئے اپنی جان دیدی۔ اور اسے تو کسی بات کی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ میرا شہید تو وہ ہے۔ شہید اعتزاز حسن نشانِ حیدر۔

آپ پھر اعتراض کرینگے کہ وہ بھی فوجی نہیں تھا اور اس فوجی اعزاز کا حقدار نہیں۔

حقدار تو بہرحال وہ تھا اور شائد اس سے بھی بڑے کسی اعزازکا۔ مگر ہمارے یہاں اس سے بڑا کوئی نشان نہیں۔

عبدالوحید کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ بھی 2013میں ہی انتخابات کے کچھ ہی دنوں بعد مارا گیا تھا۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنے علاقے کٹی پہاڑی میں ایک اسکول چلارہا تھا جہاں وہ غریب بچے بچیوں کو اچھی تعلیم دے رہاتھا، ان کے شناختی کارڈ کے فارم بھروارہا تھا، انہیں پولیو کے قطرے پلا رہا تھا، اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ان کو رجسٹر کروارہا تھا۔ لوگوں کی خدمت کر رہا تھا۔ مارا گیا۔

ایسا نہیں کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ خطرے میں ہے۔ اسے کئی دن سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔وہ چاہ بھی رہا تھا کہ اس جگہ سے نکل جائے۔ مگر کام تو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا۔ آخر وہ تمام لوگ جن کیلئے وہ کام کر رہا تھا اس کے اپنے لوگ تھے۔ وہ اپنے ہموطنوں کیلئے کام کر رہا تھا۔ اس سے بڑھ کر وطن کی خدمت کیا ہوسکتی ہے۔

وہ تمام لوگ جو پاکستانیوں کی خدمت کرتے ہیں اور اس خدمت کرنے میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں جبکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی نہیں کہ وہ زندگیاں ہار دیں وہ یقینا شہید ہیں۔

تو پھر ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہماری سیاسی آزادیوں کیلئے لڑتے رہے اور اسی لڑائی میں مارے گئے؟ شہید حسن ناصر جو کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے جنرل سیکریٹری تھے اور جن کو پہلے فوجی آمر ایوب خان نے تشدد کرکے مار دیا تھا۔ یا جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بھینٹ چڑھ جانے والے نذیر عباسی اور ایاز سموں۔ تو ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اور بینظیر بھٹو؟

ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پھیلائی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے ہاتھوں قتل ہونے والے سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی بھی اسی ملک کے مفادات کو بچاتے ہوئے شہید ہوئے۔اور اقبال مسیح؟ جو محض 12برس کی عمر میں حق بات کہتا ہوا شہید ہوا۔ اسے کیوں نہ یاد کریں؟شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنے ملک کے مفادات کو پہچانیں۔ ہمارے مفادات میں ہماری صرف جغرافیائی سرحدیں ہی نہیں آتیں بلکہ ہمارے صحتِ عامہ، تعلیم، سیاسی آزادی، روزگار اور سماجی برابری کے سارے حقوق کی حفاظت آتی ہیں۔ ہر ہر وہ شخص جو ان حقوق کی حفاظت میں اپنی جان کی بازی ہار دیتا ہے جبکہ زندگی داؤ پر لگانا اس کا کام نہ رہا ہو شہید ہے۔ ان شہیدوں کو اور اس دفاع وطن کو یاد رکھنے کیلئے کوئی اور دن نہیں چاہئیے۔ یوم دفاعِ پاکستان پر صرف انہیں ہی یاد کرلیں تو ملک کی بنیادیں زیادہ مظبوط ہو جائینگی۔ ملک طاقتور ہوگا۔ کسی نام نہاد حملے کو یاد کرنے سے صرف خوف بڑھتا ہے۔ کمزوری کا واویلہ مچانے میں ہمارا کوئی مفاد نہیں۔

Share in facebook Share in twitter Share via email