پورے محلّے سے دولڑکیاں جو اسکول جاتی ہیں

ثمینہ رحیم


جو ایک جملہ میری امّی نے تقریباً تمام رشتہ داروں سے سن لیا ہے وہ ہے کہ تمہاری بیٹیاں بڑی ہوچکی ہیں اب ان کو مزید نہ پڑھاﺅ۔ یہ بات شائد آپ کو عجیب لگے لیکن میں اور میری بہن پورے علاقے میں صرف دو لڑکیاں ہیں جو اسکول جاتی ہیں۔ ہمارے محلّے میں اور جتنے بھی گھر ہیں وہاں لڑکیوں کو پڑھایا نہیں جاتا۔ ہمارے قریب ہی دو اور لڑکیاں رہتی ہیں جن کو پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن پہلے تو ان کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ تعلیم کے اخراجات نہیں اٹھاسکتے۔ لیکن پھر جب میری امّی نے ان کی والدہ سے کہا کہ اسکول والے خود خرچہ اٹھاتے ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ لڑکیوں کے چچا ان کی تعلیم کے خلاف ہیں۔

بڑی مشکل سے ان میں سے چھوٹی والی کو میری امّی نے پرائمری اسکول میں داخل کروایا ہے لیکن اب اس کو بھی اس کے گھر والے اسکول سے اٹھانے کی باتیں کر رہے ہیں۔

میرے محلّے میں تقریباً دس بچّیاں ہیں جنہیں اسکول جانا چاہیے لیکن ان کے گھر والے انہیں تعلیم سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر والے ان کو مدرسے ضرور بھیجتے ہیں اور پھر وہ بازار بھی جاتی ہیں لیکن اسکول جانے کی بات جب ہوتو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کی لڑکیاں گھر سے باہر نہیں جاتیں۔

پتہ نہیں کیسے نہیں جاتیں۔ مدرسے اور بازار تو جاتی ہیں۔

سب سے بڑی تکلیف یہ ہے کہ محلّے کو دوسرے گھروں کو دیکھ کر میرے ابّو بھی کہنے لگتے ہیں کہ بس بہت ہوگیا مجھے اور میری بہن کو اسکول سے اٹھا لیں۔ مگر میری امّی نے اب تک ان کو ایسا کرنے نہیں دیا ہے۔ ان کو خود بھی پڑھنے کا شوق تھا لیکن میرے نانا نے ان کو نہیں پڑھایا۔ اب وہ یہ شوق ہم کو پڑھا کر پورا کر رہی ہیں۔